۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
انبیاء اور فلسفیوں  کے درمیان فرق

حوزہ/حکماء اور فلسفیوں کی باتیں کتابوں کی سطروں سے باہر نکل کر حقیقی دنیا میں بہت کم ہی پھیل پاتی ہیں جب کہ انبیاء کی تعلیمات عالمگیر بن جاتی ہیں۔ فلسفی جو کچھ دیتے ہیں وہ کسی ایسی دعا کی ایک قسم کی طرح ہے جو دعا کرنے والے کی مونچھوں کے بال سے اوپر نہیں بڑھتی اور لفظ و بیان کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھ پاتی ، نہ کہنے والے میں ایمان و یقین پیدا کرتی ہے اور نہ سننے والے میں ایمان کی رمق ایجاد کرتی ہے۔

تحریر: سید لیاقت علی کاظمی

حوزہ نیوز ایجنسیانبیاءؑ، الٰہی فلسفیوں اور سماجی فلسفیوں میں فرق: انبیاء کی تعلیم کردہ خدا شناسی و توحید اور فلسفیوں کی الہیاتی تعلیم اور توحید میں بڑا فرق ہے۔ علما ء و دانشور اور فلسفی اس سلسلے میں انسانوں کو جو کچھ دیتے اور دیتے ہیں وہ فکر و دانش کی منزل سے تجاوز نہیں کرتا۔ ارسطو کا "مُحرِّکِ اوّل"نظام شمسی میں انسانوں کے لحاظ سے یورینس یا نیپٹن ستارے پر یقین کرنے جیسا ہی ہے؛ بس اسی حد تک انسان اپنے خیال کے مطابق یہ مان لیتا ہے کہ نظامِ وجود میں کوئی واجب الوجود ہے؛اس پر دلائل و براہین بھی بڑے ہی مضبوط قسم کے ہیں اسی طرح دیگر فلسفیانہ دلائل کا بھی حال ہے۔([1])

علمی اور فلسفیانہ توحید میں اتنا دَم نہیں ہے کہ وہ انسان کو خدا پر یقین رکھنے والااور خدا کا گرویدہ اور اس کا چاہنے والا بنا دے اور خدا کو انسان کے لئے محبوب اور پسندیدہ بنادے کہ انسان خدا کی طرف راغب ہوجائے اور اس کے راستے پر چلنے لگے اور اس سے دیگر رغبتیں اور چاہتیں چھین لے اور صرف خدا کا بنا دے اور اس پر خدائی رنگ چڑھادے کہ راتوں کی نیند آنکھوں سے جاتی رہے اور دن کی بھوک و پیاس کی اسے پرواہ نہ ہویعنی خدا کا عشق اسے شب زندہ دار اور روزہ دار بنا دے، فلسفے میں اتنا اثر اور اتنی طاقت و قوّت اور قابلیت نہیں ہے، جیسا کہ اصحاب صُفّہ میں سے ایک حارثہ نے رسول اللہ ﷺکے جواب میں کہا:«إِنَّ يَقِينِی أَسْهَرَ لَيْلِی وَ أَظْمَأَ هَوَاجِرِی»...([2]

انبیاء نے خدا اور انسان کے درمیان ایک عملی رشتہ اور تجارت قائم کی اور یہ انتہائی اہم ہے۔([3]) انبیاء نے فرمایا: ﴿إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ﴾‏([4])، فرماتے تھے:﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾‏([5])، فرماتے تھے: ﴿إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا﴾‏([6]

حکماء کوانبیاء کی ضرورت:* اگر کوئی یہ شکایت کرے کہ چونکہ انسان حکمت کے ذریعے علم حاصل کر سکتا ہے تو حکماء طبقے کو انبیاء کی ضرورت نہیں تو جواب یہ ہے:
[1] اوّلاً، حکماء بھی انبیاء کی رہنمائی اور اولیاء اللہ کی تعلیمات سے ہی استدلال کی حقیقتوں اور اس کی تہہ تک پہنچے ہیں۔
[2] ثانیاً، کسی چیز کا بس جان لینا ہی کافی نہیں ہوتا جب تک کہ اس سے انسانی روح روشن نہیں ہوجاتی اور انسان کے باطن سے معرفت جوش نہیں مارتی۔ استدلال پر مبنی علم صرف عارضی علم کا تعارف بَھر ہے۔([7])

صاحبانِ رائے یا اہل عمل:مکتبِ انبیاء اور مکتبِ فلاسفہ و حکماء میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ حکماء و فلسفی حضرات صرف نظریہ ساز ہوتے ہیں اور ان کا سروکار بَس تعلیم و تدریس سے ہوتا ہے اور ان کا تعلق صرف زبان سے انسانی افکار و ادراکات کو بیان کرنے سے ہوتا ہے لیکن انبیاء جو کچھ بھی کہتے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ دوسروں سے ایسا کرنے کے لیے اپنی زبان کھولیں سب سے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں، اور اسی لیے ان کی گفتگو انسانی روح کی گہرائیوں تک پہنچ جاتی ہےاور وہ انسانی دل اور جذبات کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔([8])

حکماء اور فلسفیوں کی باتیں کتابوں کی سطروں سے باہر نکل کر حقیقی دنیا میں بہت کم ہی پھیل پاتی ہیں جب کہ انبیاء کی تعلیمات عالمگیر بن جاتی ہیں۔([9])

یہ ایک ایسا مدرسہ ہے جو ہر ایک کے لیے ہے: مکتبِ انبیاء اور فلسفیانہ مکاتب کے درمیان ایک فرق یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ مکاتب خصوصی اور نِجی ہوتے ہیں اور ان میں انبیاء کی منطق کے برعکس ایک یکساں منطق ہوتی ہے۔ مکتبِ انبیاء میں یہ اصول ہے کہ« أُمِرْنا أنْ نُكلِّمَ الناسَ عَلىٰ قَدْرِ عُقُولِهِمْ»([10]) لیکن فلسفیانہ مکاتب میں ایسا نہیں ہے، کیونکہ فلسفی مکاتب کےبرخلاف مکاتبِ انبیاء کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہے۔ فلسفیانہ مکاتب کے دروازے صرف مخصوص لوگوں کے لیے کھلے ہیں وہ بھی ایک خاص مقدار کے اندر گنے چنے لوگوں کے لیے۔([11])

انبیاء کے طریقۂ کار اور فلسفیوں کے طریقۂ کار میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ فلسفی اپنے اظہار بیان کے لیے ہمیشہ ایک خاص منطق اور ایک خاص سطح کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کی دکان میں ایک چیز اور ایک سامان کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے گاہک بھی صرف ایک طبقے کے مخصوص افراد ہی ہوتے ہیں جو کہ واضح طور پر ان کی نااہلی اور عاجزی کو بیان کرتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے ارادوں اور مراد و مطالب کا اظہار نہیں کر سکتے سوائے اصطلاحات کے لفافے میں لپیٹے، اور لامحالہ ایک مخصوص طبقہ جو ان کی زبان سے واقف ہے، ان کی باتوں کو سمجھتا ہے اور بس۔ کہا جاتا ہے کہ افلاطون کے مشہور اسکول کے مرکزی دروازے پر - ایتھنز شہر سے باہر ایک باغ تھا جسے اکیڈمی باغ کہا جاتا تھا اسی وجہ سے آج بھی علمی نشستوں کے مرکز کو اکیڈمی کہا جاتا ہے-ایک شعر لکھا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ : علم ہندسہ سے نا واقف حضرات اس مدرسے میں آنے کی زحمت گوارہ نہ کریں۔

انبیاء کے پاس جو مکتب اور طریقہ ہے، اس سے ہر قسم کے شاگرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس میں ہر قسم کا ساز و سامان موجود ہے، عالی سے عالی ممتاز اور عظیم قسم بھی موجود ہے کہ جہاں آکر افلاطون جیسے شاگردی کریں ساتھ ہی ایک کم سطح کی ایک بوڑھی عورت کے لیے بھی انبیاء کا یہ مکتب مفید ہے۔ کسی مکتبِ نبوت کے صدر دروازے پر یہ نہیں لکھا ہے کہ جو کوئی یہاں اس مکتب سے استفادہ کرنا چاہے وہ اتنی مقدار میں پڑھا لکھا ہو یا اس کے پاس فلاں سرٹیفکیٹ ضرور ہو۔

بلاشبہ، یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنا زیادہ پڑھا لکھا اور جتنا زیادہ باصلاحیت اور مُستعد ہوگا اتنا ہی زیادہ فائدہ بھی اٹھا پائے گا، جب کہ جس قدر کم آمادہ اور کم باصلاحیت ہوگا، وہ اپنی صلاحیت بھر ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے، کیونکہ«انّا مَعا شِرَ الأنْبِیاءِ أُمِرْنا أنْ نُكلِّمَ الناسَ عَلىٰ قَدْرِ عُقُولِهِمْ»([12])

انبیاء اور فلسفیوں کے بہترین طالب علم:فلسفیوں کے بہترین شاگرد وہ ہیں جنہوں نے ان کے درس میں حضوراً شرکت کی ہے ،مکتبِ انبیاء و اولیاء کے شاگردوں کے برعکس ۔ افلاطون یا ارسطو یا بو علی کے بہترین شاگرد اپنے اپنے شعبے کے بلا واسطہ اور براہ راست شاگرد ہیں۔

جس نے بو علی کے کلام کو بہترین طریقے سے سمجھا اس میں ان کے بلا واسطہ شاگردبہمنیار یا ابو عبید جوزجانی کا نام لیا جا سکتا ہے۔ لیکن سرکار دو عالم ﷺ یا امیر المومنین(ع) یا حضرت امام جعفر صادق﷣ کے بہترین شاگردوں کا کیا ہوگا؟ کیا ان کے بہترین شاگرد وہی ہیں جو خود ان کے اپنے زمانے میں تھے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔

خود سرکار دو عالم ﷺ ؐ نے اپنی تقریر میں ایک نکتہ بیان فرمایا ہے۔ شاید جو اُس دور میں تھے انہوں نے اسی کلام کا درست مفہوم نہ سمجھا ہو... فرمایا: «نَصَرَ اللَّهُ عَبْداً سَمِعَ مَقالَتی فَوَعاها وَ بَلَّغَها مَنْ لَمْ یَبْلُغْهٗ»([13])، یعنی خدا اس شخص کا ناصر و مددگار ہو جو ہمارے کلام کو سنے اور اسے یاد رکھے اور ان تک پہنچائے جن تک ہمارا کلام نہ پہنچا ہو...

مثلاً ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ سے آپؐ کا کوئی ایک کلام سنتا ہے:« لَا ضَرَرَ وَ لَا ضِرَارَ» لیکن وہ خود یہ سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ یہ جملہ کس قدر رسا اور فصیح و بلیغ ہے۔ جس کے بعد وہ اس کلام کو اگلی نسل تک منتقل کردیتا جسے آنے والی نسل اس کلام بہتر سمجھتی ہے پھر یہ نسل اس کلام کو اگلی نسل تک منتقل کرتی ہے یہاں تک کہ ممکن ہے کہ بیسویں نسل تک پیغمبرﷺ کا کلام منتقل ہوجائے اور وہ پہلی، دوسری اور تیسری نسل سے بہتر طور پر اس کلام کو سمجھے اور زیادہ قابلیت رکھتی ہو...

فلسفیانہ طریقوں میں، کس نے استاد کے الفاظ کے معنی سب سے بہتر سمجھے ہیں؟ وہ جو سب سے پرانا ہے۔ لیکن انبیاء اور اولیاء کے مکتب میں، کس نے معنی اور مقصد کو بہتر سمجھا؟ وہ جو مستقبل میں آئیں گے اور جن کے پاس زیادہ علم اور سمجھ ہوگی۔ یہ خودمعجزۂ نبوت ہے...

یہ ہےنبوت کا معجزہ اور قرآن کا معجزہ ہے جس کے بارے میں جناب امیر(ع) کا فرمان ہے([14]):« لَا تَفْنٰی غَرَآئِبُهٗ، وَ لَا تَنْقَضِیْ عَجَآئِبُهٗ»([15])

مذہبی عدالت کا قیمتی اور عزیز ہونا:عدل و انصاف ... لوگوں کو جو کچھ انبیاء دیتے ہیں اور اسی کے بالمقابل جو کچھ فلسفی دیتے ہیں اس میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ فلسفی جو کچھ دیتے ہیں وہ کسی ایسی دعا کی ایک قسم کی طرح ہے جو دعا کرنے والے کی مونچھوں کے بال سے اوپر نہیں بڑھتی اور لفظ و بیان کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھ پاتی ، نہ کہنے والے میں ایمان و یقین پیدا کرتی ہے اور نہ سننے والے میں ایمان کی رمق ایجاد کرتی ہے۔ ([16])
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
([1]) یادداشتہائے شہید مطہری، ج 4، ص 130۔
([2]) الكافی : 2 / 53 / 2۔
([3]) یادداشتہائے شہید مطہری، ج 4، ص 131۔
([4]) محمد (47): 7۔
([5]) عنکبوت (29): 69۔
([6]) حج (22): 38۔
([7]) یادداشتہائے شہید مطہری، ج 4، ص 130۔
([8]) حکمتہا و اندرزہا (1-2)، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 22، ص 181۔
([9]) حکمتہا و اندرزہا (1-2)، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 22، ص 181۔
([10]) الکافی، ج 1، ص 23۔
([11]) یادداشتہائے شہید مطہری، ج 2، ص 303۔
([12]) رہبری نسل جوان (دہ گفتار)، ، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 24، ص 520۔
([13]) الامالی، شیخ مفید، ص 186۔
([14]) رہبری نسل جوان (دہ گفتار)، ، مجموعۂ آثار شہید مطہری، ج 24، ص 521۔
([15]) نہ اس کے عجائبات مٹنے والے ہیں اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں۔نہج البلاغہ، خطبہ 150۔( نسخوں کے اختلاف کی بنا پر خطبے کا نمبر مختلف ہوسکتا ہے)۔
([16]) یادداشتہائے شہید مطہری، ج 4، ص 173۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .